بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا. النِّسَآء(۹۳)
ترجمہ: اور جو بھی کسی مومن کو قصدا قتل کردے گا اس کی جزا جہّنم ہے- اسی میں ہمیشہ رہنا ہے اور اس پر خدا کا غضب بھی ہے اور خدا لعنت بھی کرتا ہے اور اس نے اس کے لئے عذابِ عظیم بھی مہیاّ کررکھا ہے۔
موضوع:
قتلِ مومن ایک سنگین جرم اور اس کے ابدی نتائج
پس منظر:
یہ آیت سورہ نساء کی ہے جو اسلامی معاشرتی نظام اور عدل و انصاف کے اصولوں کو بیان کرتی ہے۔ اس آیت میں خداوندِ متعال نے مومن کے قتل کو ایک انتہائی سنگین گناہ قرار دیا ہے اور اس کے مرتکب کے لئے سخت عذاب کا وعدہ کیا ہے۔ یہ آیت ان افراد کے لیے وارننگ ہے جو انسانی زندگی کی حرمت کو پامال کرتے ہیں۔
تفسیر:
کسی مومن کو جان بوجھ کر جان سے مار دینے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:
i۔ اگر مومن ہونے کی وجہ سے اس کا خون حلال سمجھ کر قتل کرتا ہے تو اس صورت میں قاتل ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اس پر خدا کا غضب ہو گا اور وہ اس کی رحمت سے بھی دور ہو گا اور اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی، جیسا کہ ہمارے زمانے (۱۴۲۵ھ) میں کچھ نام نہاد مسلمان، شیعوں کو شیعہ ہونے کے جرم میں قتل کر رہے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے ان کو جنت ملے گی۔
ii۔ قتل کا محرک مقتول کا مومن ہونا نہ ہو اور نہ ہی اسے جائز القتل اور اس کا خون حلال سمجھ کر قتل کیا ہو تو اس صورت میں کیا اس قاتل کی توبہ قبول ہوگی یا نہیں؟ چند اقوال ہیں۔ اہل تحقیق کے نزدیک اس کی توبہ قابل قبول ہے۔
اہم نکات:
۱۔ ایمان کے جرم میں مومن کے قتل سے قاتل ابدی جہنمی بن جاتا ہے۔
نتیجہ:
یہ آیت قتلِ مومن کی سنگینی اور اس کی سزا پر زور دیتی ہے تاکہ مسلمان معاشرے میں انسانی زندگی کی حرمت اور انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے سخت وارننگ موجود ہے، جو مؤمنین کو محتاط رہنے اور گناہوں سے دور رہنے کی تعلیم دیتی ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء
آپ کا تبصرہ